بدھ 31 دسمبر 2025 - 23:09
بیت اللہ میں ولی اللہ کی ولادتِ باسعادت

حوزہ/خداوند علی و عظیم کے عظیم الشان ولی اور حضرت رسول کریم(ص) کے بلند مرتبہ وصی حضرت مولا علی (ع) کا الٰہی اہتمام و انتظام کے تحت خانۂ کعبہ کے اندر پیدا ہونا یقیناً وہ منفرد و ممتاز اور بے مثل و بے نظیر شرف و اعزاز ہے کہ جو نہ آپ سے پہلے کسی کو نصیب ہوا اور نہ آپ کے بعد کسی کے حصے میں آیا۔

تحریر: مولانا ظہور مہدی مولائی

حوزہ نیوز ایجنسی| خداوند علی و عظیم کے عظیم الشان ولی اور حضرت رسول کریم(ص) کے بلند مرتبہ وصی حضرت مولا علی (ع) کا الٰہی اہتمام و انتظام کے تحت خانۂ کعبہ کے اندر پیدا ہونا یقیناً وہ منفرد و ممتاز اور بے مثل و بے نظیر شرف و اعزاز ہے کہ جو نہ آپ سے پہلے کسی کو نصیب ہوا اور نہ آپ کے بعد کسی کے حصے میں آیا۔

کعبہ وہ سب سے پہلا محترم و مقدس گھر ہے جسے لوگوں کے لئے پربرکت اور عالمین کے لئے ھدایت قرار دیا گیا ہے(1) اور مولا علی (ع) وہ سب سے پہلے اور سب سے آخری انسان کامل ہیں جنھیں رب کعبہ نے جوف کعبہ میں پیدا فرمایا ہے۔

بلاشبہ ١٣/ رجب، ٣٠/ عام الفیل کو حضرت امیر المومنین امام علی ابن ابی طالب علیہما السلام کا جوف کعبہ میں ولادت پانا، ایک ایسی عظیم حقیقت و واقعیت ہے کہ جسے شیعہ و سنی دونوں کی روائی و تاریخی کتابوں میں" تواتر" کے ساتھ نقل کیا گیا ہے۔

ظاھر ہے کہ ان کتابوں کے تمام بیانات کا تحریر کرنا ، اس مقالہ کی حد سے باہر ہے اس لئے یہاں کچھ شیعہ اور کچھ سنی علما و مورخین کے بیانات پر اکتفا کی جارہی ہے:

الف۔ شیعہ علماء کے بیانات

1۔ شیخ صدوق علیہ الرحمہ نے اپنی روائی و حدیثی کتاب علل الشرایع(2) معانی الاخبار (3)اور الامالی(4)میں یزید ابن قعنب سے روایت نقل کرتے ہوئے لکھا ہے کہ : فاطمہ بنت اسد کعبہ کے نزدیک تھیں کہ درد زہ میں مبتلا ہوئیں اور اس وقت انھوں نے اللہ سے دعا کی کہ : اس امر کو مجھ پر آسان فرما، اسی وقت پشت سے کعبہ کی دیوار شگافتہ ہوئی، وہ کعبہ میں داخل ہوئیں اور دیوار پھر بند ہوگئی۔

انہوں نے یزید ابن قعنب کی زبانی یہ بھی نقل کیا ہے کہ ہم نے اس کے بعد باب کعبہ کو کھولنے کی بہت کوشش کی، لیکن وہ نہیں کھل پایا تو ہم نے سمجھ لیا کہ یہ کام اللہ کی جانب سے انجام پایا ہے، پھر چار دن کے بعد فاطمہ بنت اسد کعبہ سے اس حال میں باہر آئیں کہ اپنے ہاتھوں پر علی کو لئے ہوئے تھیں۔

2۔ علامہ طبری رقمطراز ہیں کہ فاطمہ بنت اسد طواف کعبہ میں مشغول تھیں، اسی ہنگام انھیں اس شدت سے درد زہ لاحق ہوا کہ گھر پلٹنے کی طاقت نہ رہی ، اس لئے کعبہ کی طرف بڑھیں تو اس میں در بن گیا ، وہ اس کے اندر چلی گئیں ، در پھر بند ہوگیا ، کعبہ کے اندر علی پیدا ہوگئے اور وہ تین دن تک وہیں رہیں۔(5)

3۔ علامہ محمد باقر مجلسی علیہ الرحمہ نے تحریر کیا ہے کہ: آنحضرت کی ولادت عام الفیل کے تیسویں سال 13رجب کو کعبہ کے اندر شیعہ و سنی محدثین و مورخین کے درمیان مشہور و معروف ہے۔(6)

ب۔ سنی علماء کے بیانات

1۔ محمد ابن اسحاق فاکہی( متوفائے275ھ ق) نے لکھا ہے:" واول من ولد فی الکعبة من بنی ھاشم من المھاجرین علی ابن ابی طالب رضی اللہ عنہ" (7) یعنی بنی ہاشم اور مہاجرین میں پہلے وہ شخص جو کعبہ میں پیدا ہوئے علی ابن ابی طالب رضی اللہ عنہ ہیں۔

2۔ حاکم نیشاپوری نے تحریر کیا ہے"فقد تواترت الأخبار أن فاطمة بنت أسد ولدت أمیر المؤمنین علی بن أبی طالب کرم الله وجهه فی جوف الکعبة" (8) یعنی اخبار و احادیث کا تواتر موجود ہے اس پر کہ بیشک فاطمہ بنت اسد کے بطن سے امیرالمومنین علی ابن ابی طالب کرم اللہ وجھہ جوف کعبہ میں پیدا ہوئے ہیں۔

3۔ ابو زکریا ازدی رقمطراز ہیں: "وکان ولد فی الکعبة ولم یولد فیها خلیفة غیر أمیر المؤمنین علی بن أبی طالب۔۔" (9) یعنی آنحضرت کعبہ میں پیدا ہوئے اور امیرالمومنین علی ابن ابی طالب علیہ السلام کے علاوہ کوئی خلیفہ کعبہ میں پیدا نہیں ہوا۔

4۔ حافظ گنجی شافعی نے لکھا ہے:"ولد أمیر المؤمنین علی بن أبی طالب بمکة فی بیت الله الحرام لیلة الجمعة لثلاث عشرة لیلة خلت من رجب سنة ثلاثین من عام الفیل ولم یولد قبله ولا بعده مولود فی بیت الله الحرام سواه إکراما له بذلک ، وإجلالا لمحله فی التعظیم" (10) یعنی امیرا لمومنین علی ابن ابی طالب بیت اللہ الحرام مکہ میں شب جمعہ 13 رجب 30 عام الفیل میں پیدا ہوئےاور آنحضرت سے پہلے اور بعد کوئی اس میں پیدا نہیں ہوا ، یہ ان کی خصوصی فضیلت ہے جو اللہ نے انھیں ان کے عظیم مقام کا اجلال و اکرام کرتے ہوئے عطا فرمائی ہے۔

5۔ آلوسی نے تحریر کیا ہے :"و فی کون الامیر کرم الله وجهه ولد فی البیت، امر مشهور فی الدنیا وذکرفی کتب الفریقین السنه و الشیعه"(11) یعنی امیر کرم اللہ وجھہ کا بیت اللہ میں پیدا ہونا، وہ امر ہے جو دنیا بھر میں مشہور ہے اور فریقین سنی و شیعہ کی کتابوں میں اس کا ذکر موجود ہے۔

بہر کیف ان مذکورہ چند بیانات سے ہم اس نتیجہ تک پہنچ سکتے ہیں کہ بیت اللہ الحرام کے اندر حضرت مولائے کائنات علیہ السلام کی ولادت باسعادت ایک مسلم ، مشہور و معروف اور تواتر کے ساتھ نقل ہونے والی وہ حقیقت ہے کہ جسے جھٹلانا ممکن نہیں ہے، اسی لئے مولود کعبہ حضرت امیر المومنین علیہ السلام کے کٹر دشمن بھی اس کا انکار نہیں کر سکے، لیکن اتنا ضرور ہے کہ ان بدخواہوں نے آنحضرت کی اس منفرد و منحصر فضیلت کو کم رنگ کرنے کی پلید کوشش ضرور کی ہے، اسی لیے انھوں نے کعبہ میں حکیم ابن حزام کی پیدائش کی روایت جعل کی ہے اور یہ دعویٰ کیا ہے کہ: کعبہ میں پیدا ہونا علی کی خصوصی اور منفرد فضیلت نہیں ہے، چونکہ حکیم ابن حزام بھی کعبہ میں پیدا ہوا ہے۔

اس روایت کی حقیقت :

یہ روایت سب سے پہلے زبیر ابن بکار نے مصعب ابن عثمان سے نقل کی ہے ، اس سے پہلے سنی محدثین میں سے کسی نے بھی اسے اپنی کتاب میں نقل نہیں کیا ہے اور اس کے بعد جس نے بھی یہ روایت نقل کی ہے، اس نے اسی ( زبیر ابن بکار) کے حوالہ سے نقل کی ہے۔

رد و بطلان

یہ روایت حسب ذیل دلیلوں کی بنا پر مردود اور باطل قرار پاتی ہے:

1۔ یہ روایت ، صحیح اور متواتر روایات کے خلاف ہے۔

2۔ حکیم ابن حزام مشرک تھا ، جو فتح مکہ کے دن مسلمان ہوا اور اس کا شمار مولفة القلوب میں ہوتا تھا۔ (12) اس لئے اس کا اہتمام الٰہی کے تحت کعبہ میں پیدا ہونا غیر ممکن ہے۔

3۔ زبیر ابن بکار نے یہ روایت مصعب ابن عثمان سے نقل کی ہے اور وہ ایسا مجہول شخص ہے جس کا ذکر اہل سنت کی کسی رجالی کتاب میں موجود نہیں ہے۔

4۔ یہ روایت، مرسلہ ہے، چونکہ مصعب ابن عثمان اس واقعہ کے دس سال بعد پیدا ہوا ہے، پس کیسے اس واقعہ کی خبر دے سکتا ہے۔

اہل سنت کی نگاہ میں مرسلہ روایت کی حیثیت:

علمائے اھل سنت کا اس پر اتفاق ہے کہ مرسلہ روایت، درجہ اعتبار سے ساقط ہے، اس پر بعنوان دلیل بہت سے سنی علما کے اقوال پیش کئے جا سکتے ہیں، لیکن تنگئ مجال کی وجہ سے صرف دو اہم قول نمونہ کے طور پر پیش کئے جارہے ہیں :

الف۔ نووی نے لکھا ہے :" المرسل حدیث ضعیف عند جماھیر المحدثین "(13)یعنی مرسل حدیث جمہور محدثین کے نزدیک ضعیف مانی جاتی ہے۔

ب۔ مسلم نیشاپوری نے صراحت کی ہے:" و المرسل من الروایات فی اصل قولنا و قول اھل العلم بالاخبار لیس بحجة"(14)۔یعنی مرسل اس روایت کو کہتے ہیں جو ہمارے اور اخبارو روایات کا علم رکھنے والوں کے قول کے مطابق حجت نہیں ہے۔

5۔ اس روایت کو آل زبیر کی طرف سے جعل کیا گیا ہے اور وہ سرکار امیرا المومنین علیہ السلام کی ذات مبارک سے شدید بغض و کینہ رکھتے تھے ، اسی لئے انھوں نے آنحضرت کے فضائل و مناقب کو کم رنگ کرنے کے لئے یہ روایت اور اس قسم کی بہت سی خلاف حقیقت چیزیں جعل کی ہیں۔

پس محکم و روشن دلائل سے ثابت و واضح ہے کہ جوف کعبہ میں سرکار مولائے کائنات علیہ السلام کی ولادت باسعادت آنحضرت کی وہ منفرد و خصوصی فضیلت ہے جو خداوند علی و اعلی نے فقط آپ کو مرحمت فرمائی ہے اور اس کے استخفاف کے سلسلہ میں معاندین کی پلید کوششیں نہایت رکیک اور باطل و مردود ہیں۔

حوالہ جات

1۔ إِنَّ أَوَّلَ بَيْتٍ وُضِعَ لِلنَّاسِ لَلَّذِي بِبَكَّةَ مُبَارَكًا وَهُدًى لِلْعَالَمِينَ۔قرآن حکیم ، پارہ 4 ، سورہ آل عمران ، آیہ 96۔

2۔ علل الشرایع ،1385ھ ش، ج 1 ، ص135۔

3۔ معانی الاخبار ، 1403 ھ ق ، ص 62۔

4۔ الامالی ، 1376ھ ش ، ص132۔

5۔ تحفة الابرار ، 1376ھ ش، ص 164، 165۔

6۔ جلاء العیون مجلسی ، ص 80۔

7۔ اخبار مکہ فاکہی ، ج 3 ، ص 226۔

8۔ المستدرک علی الصحیحین ، ج 3 ، ص550۔

9۔تاریخ موصل ، کتاب الثالث عشر، ص 58۔

10۔ کفایة الطالب ، ص 405، 406۔

11۔ سرح الخریدة الغیبیہ فی شرح القصیدة العینیه، ص 3 و 15۔

12۔ اسد الغابہ ابن اثیر ، ج 1، ص 522۔

13۔ التقریب والتیسیر لمعرفةسنن البشیر النذیر ، ج 1، ص 35۔

14۔صحیح مسلم ، ج 1 ، باب 6 ، ص 30۔

لیبلز

آپ کا تبصرہ

You are replying to: .
captcha